اسلام میں قیدیوں کے حقوق

 

مفتی تنظیم عالم قاسمی                

استاذِ حدیث دارالعلوم سبیل السلام، حیدرآباد

 

اسلام سراپا رحمت اور شفقت ہے، اس مذہب میں عدل واحسان کی بار ہا تاکید کی گئی ہے اور یہی اس مذہب کی روح ہے، ظلم وزیادتی، ناحق مارپیٹ، ستانا اور کسی کو خواہ مخواہ پریشان کرنا، اس مذہب میں جائز نہیں، اسلام کی نظر میں مرد وعورت امیر وغریب، محتاج اور غنی سب برابر ہیں، کسی کو کسی پر فو قیت حاصل نہیں؛ اس لیے کسی امیر کو غریب کے ساتھ ناروا سلوک کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور نہ ہی کسی صاحبِ طاقت کو بے کس اور کمزوروں پر اپنی طاقت استعمال کرنے کا حق دیا گیا ہے؛ یہاں تک کہ بے زبان جانوروں پر شفقت اور رحمت کا حکم دیا گیا ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مختلف ارشادات کے ذریعہ جانوروں پر ظلم وزیادتی سے منع فرمایا ہے، حضر ت جابر بن عبد اللہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے ایک گدھا گذر ا جس کے چہرے کو داغ دیا گیا تھا، اس کے دونوں نتھنوں سے خون کا فوارہ چھوٹ رہاتھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا : اللہ اس شخص پر لعنت کرے جس نے یہ حرکت کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت فرمائی کہ نہ تو چہرے کو داغا جائے، نہ چہرے پر مارا جائے۔ (زادراہ صفحہ ۷۲)

جانور کو مثلہ کرنے، اس پر نشانہ بازی کرنے اور طاقت سے زیادہ بوجھ لادنے سے منع کیاگیا، اس کی بھی ممانعت ہے کہ ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح کیا جائے؛ تاکہ اسے اپنے ذبح کیے جانے کا احساس اور اس کی تکلیف نہ ہو، اگر جانور ذبح کیا جائے تو پہلے چھری تیز کرنے کی ہدایت دی گئی کہ ذبح کرتے ہوئے جانور کو زیادہ تکلیف نہ ہونے پائے، غور کرنے کی بات ہے کہ شریعت نے ایک جانور کے ساتھ کس قدر محبت وشفقت کا حکم دیا ہے، یہ اس لیے کہ کوئی انسان یہ خیال نہ کرے کہ یہ بے زبان کمزور اور ناتواں مخلوق ہے، اس پر جس طرح بھی ہو سکے زیادتی درست ہو گی، بلکہ دیکھا جائے تو کتا ایک نجس جانور ہے؛ لیکن ایک جاندار مخلوق کی حیثیت سے وہ بھی سزاوارِ رحم وکرم ہے اور اگر کوئی اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے تو وہ بھی موجبِ اجرہے، مشہور حدیث ہے کہ پہلے زمانے میں ایک بدکار عور ت نے پیاس سے ہانپتے ہوئے ایک کتے کو بڑی مشقت سے پانی پلایاتھا، اللہ نے اس کی قدردانی کی اور اسے بخش دیا، لوگوں نے پوچھا یا رسو ل اللہ! کیا جانوروں کے پانی پلانے میں بھی ہمیں اجر ملے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر تر جگر رکھنے والے جان دار کے پانی پلانے میں ثواب ہے۔(موٴطا امام محمد،کتاب اللقط)

اسلام میں جب ایک جانور کے ساتھ اس طرح حسنِ سلوک کی تاکید ہے تو انسان کے ساتھ رحم وکرم کی کس قدر تاکید ہو گی، انسانیت کا احترام جانور کی بہ نسبت زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ جانی دشمنوں کے ساتھ بھی کوئی ایسا معاملہ نہیں کیا جائے گا جو انسانیت کے خلاف ہو، جیسے ان کا مثلہ کرنا، آگ میں جلانا، پیاس سے تڑپانا، غیر انسانی سزادینا وغیرہ ۔ایک مرتبہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے ایک یہودی جنازہ گذرا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  بیٹھے ہوئے تھے جب جنازہ پر نظر پڑی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے، صحابہٴ کرام نے سوال کیا یا رسول اللہ !یہ تو ایک یہودی اور غیر مسلم کا جنازہ تھا،اس کے احترام میں کھڑے ہونے کی کیا ضرورت تھی ؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا أَلَیْسَتْ نَفْسًا (مشکوة صفحہ۱۴۷) ” کیا وہ انسان نہیں ہے “ یہاں اگر چہ وہ مسلمان نہیں تھا؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کا احترام کیاہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفر وشرک کے باوجود آدمیت کے اوصاف اور ان کا احترام باقی رہے گا، یہی وجہ ہے کہ شریعتِ اسلامی نے غلاموں کے ساتھ نیک برتاؤ کی تاکید کی ہے، خواہ وہ کافر ہوں یا مسلمان، حضرت ابوذر فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جن کو اللہ تعالی نے تمہارا دست نگر اور ماتحت بنایا ہے، وہ تمہارے بھائی ہیں یعنی لونڈی، غلام اور خدمت گار، اس کو وہ اپنے کھانے میں سے کھلائے، اپنے کپڑے میں سے پہنائے، اس کو ایسے کام کی تکلیف نہ دے جس سے وہ تھک جائے، اگر اسے ایسے کام کی تکلیف دے جس سے وہ تھک جائے تو پھر خود اس کی امداد کرے یعنی ہاتھ بٹائے ۔ (صحیح بخاری کتاب الوصایا) ایک شخص نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ! میں غلام کا قصور کتنی مرتبہ معاف کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، کچھ جواب نہ دیا، اس نے دوبارہ یہی پوچھا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم پھر خاموش رہے تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر روز ستر بار (ترمذی :۲/۱۶) حضرت علی کا ارشاد ہے کہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو الفاظ آخری وقت تک زبانِ مبارک پر جاری تھے اور جس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم  خالقِ حقیقی سے جاملے، وہ یہ الفاظ تھے الصلوٰةَ، الصلوٰةَ، اِتَّقُوْاللہ فِیْمَا مَلَکَتْ أیْمَانُکُمْ ”نماز کا خیال رکھو، اپنے زیر دست غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرو!“ غلام جو من وجہِِ قیدی ہے اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے اور ظلم وزیادتی نہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے، اس کو ادب اور تعلیم وتربیت دینا، ضرورت سے زیادہ اور بے وقت کام نہ لینا، کھانے پینے اور عبادات کے لیے فرصت فراہم کرنا؛ بلکہ اپنے بھائی جیسا سلوک کرنا اسلام کی تعلیم ہے، اسلام سے قبل اور بعد کے ایام میں بھی غیروں کی نظر میں غلاموں کی کوئی حیثیت نہیں تھی، ان کا تصور بالکل نادار، مفلس اور معاشرے سے خارج فرد کی طرح تھا، جس کو انسانی حقوق بھی حاصل نہ ہوں، یہی وجہ ہے کہ زمانہٴ جا ہلیت میں جانوروں کی طرح ان کے ساتھ سلوک کیا جاتا تھا اور آج بھی خادموں اور ناداروں کے ساتھ بھی یہی سلوک برتا جا تا ہے؛ مگر اسلام نے غلاموں کو انسانیت کے اعتبار سے مساوی حقوق فراہم کیا اور ان کے بارے میں آقاؤں کو ایسی ہدایات دیں کہ دنیا کے کسی مذہبی قانون میں اس کی نظیر نہیں ملتی، مشہور مستشرق موسیو گستاولیبان، اپنی کتاب ”تمدن عرب“ میں لکھتا ہے :

”غلام کا لفظ جب کسی ایسے یورپین شخص کے سامنے بولاجاتا ہے جو تیس سال کے دوران لکھی ہوئی امریکی روایتوں کو پڑھنے کا عادی ہے تو ان کے دل میں ان مسکینوں کا تصور آجاتا ہے جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں، ان کے گلوں میں طوق پڑے ہیں اور انھیں کوڑے مار مار کر ہنکا یا جارہاہے، ان کی غذا ان کی سدِرمق کے لیے بھی کافی نہیں ہے اور انھیں رہنے کے لیے تاریک کو ٹھریوں کے سوا کچھ میسر نہیں، مجھے یہاں اس سے بحث نہیں کہ یہ تصویر کس حد تک درست ہے اور انگریزوں نے چند سالوں سے امریکہ میں جو کچھ کیا ہے، یہ باتیں اس پر صادق آتی ہیں یا نہیں ؟ لیکن یہ بالکل یقینی بات ہے کہ اہلِ سلام کے یہاں غلام کا تصور نصاریٰ کے یہاں غلام کے تصور سے بالکلیہ مختلف ہے “ (معارف القرآن :۸/۲۵)

غلاموں اور قیدیوں کا معاملہ تقریباًیکساں ہے، لہٰذا غلاموں کے ساتھ جس طرح حسنِ سلوک کیے جانے کی ہدایات وارد ہیں، انسان ہونے کے اعتبار سے قیدیوں کے ساتھ بھی حتی الامکان حسنِ سلوک روا رکھا جائے گا،قید یوں سے کوئی ایسا برتاؤ نہ کیا جائے جو غیر انسانی ہے؛ کیوں کہ جرائم تو بہرحال انسان سے ہی ہو تے ہیں، جانوروں سے نہیں ہوتے؛ اس لیے انسانیت کا احترام بہر حال لازم ہے، جس طرح غلام سے غلامیت کے باوجود آدمیت کے خواص باطل نہیں ہو تے، اسی طرح قیدیوں سے انسانیت باطل نہیں ہو گی  وَمَا کَانَ مِنْ خَوَاصِّ الآدَمِیَّةِ فِی الرَّقِیْقِ لاَ یَبْطُلُ بَلْ یَبْقَیٰ عَلیٰ أصْلِ الْحُرِّیَةِ۔ (فتح القدیر:۳/۴۴) ایک انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے، اسے بہرحال فراہم کی جائیں گی، جیسے پیٹ بھر کھانا، پیاس بجھا نے کے لیے پانی فراہم کرنا، تن ڈھانکنے کے لیے کپڑا مہیا کرنا وغیرہ ۔ لہٰذا قیدیوں کو بھوکا، پیاسا رکھنا، یا بے لباس کرنا جائز نہیں، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی قریظہ کے قیدیوں کے بارے میں اپنے صحابہٴ کرام کو ہدایت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا:

”انھیں خوش اسلوبی سے اور حسن سلوک سے قیدکرو،انہیں آرام کا موقع دو، کھلاؤ،پلاؤ اور تلوار اور اس دن کی گرمی دونوں کو یکجا مت کرو“(الموسوعة الفقھیة:۴/۱۹۸) جن دنوں میں بنو قریظہ کے قیدیوں کو قید کیا گیا تھا، وہ گرمی کے ایام تھے، تپش زیادہ تھی؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ طور خاص دن کی گرمی اور دھوپ میں قیلولہ کے لیے مواقع فراہم کر نے کی تاکید فرمائی؛ کیوں کہ گرمی کے ایام میں قیدیوں کی گرمی کا خیال نہ رکھنا، انھیں دھوپ میں چھوڑ دینا؛ بلکہ آرام کا موقع نہ دینا بھی غیر انسانی حرکت ہے اور قیدیوں کے ساتھ غیرانسانی حرکت جائز نہیں ۔معلوم ہوا کہ قیدیوں کوا لکٹرک شاٹ لگانا، قیدیوں پر کتے چھوڑنا، قیدیوں کو سخت ٹھنڈک میں بر ف کی سلوں پر ڈال دنیا، حدسے زیادہ مار پیٹ کرنا،مسلسل جگے رہنے پر مجبور کرنا، یا ان کی جائے رہائش میں تیز روشنی یا تیز آواز کا انتظام کر نا، شرعا درست نہیں ہے ۔

چوری، قتل وغارت گری،زنا کاری، شراب نوشی، ظلم وزیادتی اور اس طرح کے دیگر جرائم یقینا اسلام کی نظر میں بھی انتہائی شنیع اور قابل مذمت ہیں، ان کے مر تکبین سخت سے سخت سزا کے مستحق ہیں؛ لیکن شریعت نے اس کے بھی حد و د متعین کیے ہیں اور ان میں اہم چیز انسانیت کا احترام ہے، ہر وہ سزا جس سے آدمیت کی تو ہین ہوتی ہو جائز نہیں ہے ۔اسیرانِ بدر میں ایک شخص سہیل بن عمر و تھا جو نہایت فصیح اللسان تھا اور عام مجمعوں میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تقریر یں کیا کرتاتھا، حضرت عمر نے کہا: یا رسول اللہ !اس کے دونیچے کے دانت اکھڑوادیجئے کہ پھر اچھا نہ بول سکے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اگر اس کے عضو بگاڑوں تو گونبی ہوں؛ لیکن خدا اس کی جزا میں میرے اعضاء بھی بگاڑ ے گا ۔ (تاریخ طبری صفحہ۱۳۴۴) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں توہین آمیز کلمات کہنا یقینا بڑا جرم ہے؛ لیکن اس کے باوجود اس کے عوض میں دانت اکھاڑنے کی رائے قبول نہیں کی گئی؛ اس لیے کہ یہ مثلہ کے دائرے میں آتا ہے، اسی طرح دانت اکھاڑنے سے ایک عضو سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جاتا جو انسانی ضرورت ہے، اس سے یہ مستفاد ہو تاہے کہ قیدیوں کو اس طرح بے تحاشہ نہیں مارا جائے گا اور نہ کوئی ایسی سزا دی جائے گی جس کے سبب ان کا کوئی عضو شل اور ضائع ہو جائے یا ان کے کسی عضو کی منفعت ختم ہو جائے؛ کیوں کہ یہ غیر انسانی فعل اور رحم وکرم کے خلاف ہے ۔

اسلام میں حقوقِ انسانی اور بنیادی آزادی کے تحفظ کا مکمل لحاظ رکھا گیا ہے، غیر انسانی یا ذلت آمیز سلوک کی قطعاً گنجائش نہیں، آج کل دنیا کے مختلف ممالک میں قیدیوں کے ساتھ جو نارواسلوک کیا جاتا ہے، وہ نا مناسب؛ بلکہ ناجائز ہے، جیسے قیدیوں کو ٹارچر کرنا، تفتیش وتحقیق کے نام پر الٹا لٹکا دینا، ایسی جگہ قیدکرنا، جہاں بیٹھنے، لیٹنے اور آرام کرنے کی گنجائش نہ ہو، بے لباس کرنا وغیرہ، ابوغریب جیل میں جو سزائیں دی جاتی ہیں، کون سادل ہے جو ان سزاؤں کی کیفیت سن کر تڑ پتا نہ ہو اور ان سزاؤں کی تصویر دیکھ کر رونگٹے کھڑے نہ ہو تے ہوں، دیگر شعبہ ہائے حیات کی طرح اس شعبے میں بھی اسلا م نے عدل واحسان پر مبنی تعلیمات اور اصول پیش کیا ہے، اس سلسلے میں جنگِ بدر کے قیدیوں کے احوال پیش کیے جاسکتے ہیں، مشہور سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی اسیرانِ بدر کے ساتھ صحابہٴ کرام کے سلوک کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

”صحابہ نے ان کے ساتھ یہ برتاؤ کیا کہ ان کو کھانا کھلاتے تھے او رخود کھجور کھاکر رہ جاتے تھے، ان قیدیوں میں ابو عزیز بھی تھے جو حضرت مصعب بن عمیر کے بھائی تھے، ان کا بیان ہے کہ مجھ کو جن انصاریوں نے اپنے گھر میں قید کر رکھاتھا، جب صبح یا شام کا کھانا لاتے تو روٹی میرے سامنے رکھ دیتے اور خود کھجور یں اٹھا لیتے، مجھ کو شر م آتی اور میں روٹی ان کے ہاتھ میں دیتا؛ لیکن وہ ہاتھ بھی نہ لگاتے اور مجھ ہی کو واپس دیتے اور یہ اس بنا پر تھا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید کی تھی کہ قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیاجائے “ (سیرة النبی : ۱/۳۳۰)

ایسے لوگ جو جنت میں جائیں گے، ان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ایک وصف یہ بھی بیان کیا کہ وہ لوگ قیدیوں کو کھانا کھلاتے تھے ارشاد باری ہے وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا (سورة الدھر، آیت ۸)”اور کھلاتے ہیں کھانا اس کی محبت پر محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو “ قیدی سے مراد ظاہر ہے کہ وہ قید ی ہے جس کو اصولِ شرعیہ کے مطابق قیدمیں رکھا گیا ہو خواہ وہ کافر ہو یا مسلمان مجرم؛ چوں کہ مجر م قیدیوں کو کھانا کھلانا حکومت کی ذمہ داری ہے، اگر کوئی شخص قیدیوں کو کھلاتا ہے تو گویا اسلامی بیتُ المال کی اعانت کرتاہے بالخصوص ابتدائے اسلام میں جب کہ بیت المال کا کوئی منظم نظام نہیں تھا؛ اس لیے صحابہٴ کرام میں قیدیوں کو تقسیم کر کے ان کے کھانے پینے اور ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کی جاتی تھی ۔

تاہم قرآن واحادیث سے قیدیوں کو زنجیر وں سے جکڑ نے، ہتھکڑیاں لگانے اور پاؤں میں بیڑیاں لگانے کی اجازت معلوم ہوتی ہے کہ مجر م کی شوکت ختم ہو جائے اور اس کے شر سے لوگ محفوظ رہیں، ارشاد باری ہے، فَاِذَالَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ افَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتّٰی اِذَا اَثْخَنْتُمُوْھُمْ فَشُدُّوْ الْوَثَاقَ (سورہ محمد، آیت ۴)

”سو جب تمہارے مقابلہ کا فروں سے ہوجائے تو ان کی گردنیں مار چلو؛ یہاں تک کہ جب ان کی خوب خونریزی کر چکو تو خوب مضبوط باند ھ لو “

حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج کا ایک دستہ قبیلہٴ نجد کی طرف روانہ فرمایا، ان لوگوں نے یمامہ کے رئیس ثُمامہ بن اُثال کو گرفتار کر لیا، ان کو مدینہ لے کر آئے اور مسجدِ نبوی کے ایک ستون سے اچھی طرح باندھ دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی؛ بلکہ جب ان کے پاس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ہو تا تو سوال کر تے  مَاذَا عِنْدَکَ یَا ثُمَامَة؟ ”تمہارا میرے بار ے میں کیا خیال ہے “؟ __ وہ جواب میں کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں میرا اچھا اور بہتر خیال ہے، اگر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  قتل کریں تو ایک واجب القتل کو قتل کریں گے اور اگرا ٓپ چھوڑ دیں تو ایک شکر گذار شخص کو چھوڑیں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مال ودولت مطلوب ہے تو فرمائیے مال حاضر کردوں گا، ایمان قبول نہ کرنے کی بنیاد پر مصلحتاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تین دن تک اسی طرح ستون میں بندھا ہوا رکھا اور یہی سوال وجواب ہوتا رہا، تیسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چھوڑ دینے کی ہدایت دی، وہ قید سے آزاد ہوے، دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور ایما ن کی الفت گھر کر چکی تھی، غسل کے بعد ایمان قبول کر لیا۔( سنن ابی داؤدحدیث نمبر ۲۳۳۱)

اس زمانے میں باضابطہ کوئی قید خانہ نہیں تھا، قیدیوں کو اسی طرح باندھ کربے بس کیا کرتے تھے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیدیوں کو باندھنا، ہتھکڑیاں پہنانا اور پاؤں میں بیٹریاں ڈالنا جائز ہے  فی الحدیث دلالةٌ علی جَوازِ الاستیثاق من الأسیر الکافر بالرِّباطّ والغِّل والقیدّ وَمَا یَدْخُلْ فِیْ مَعْنَاہَا اِنْ خِیْفَ انْفِلَاتُہ وَلَمْ یُوٴْمَنْ شَرُّہ اِنْ تُرِکَ مُطْلَقًا (عون المعبود : ۷/۳۳۷) اگر قیدیوں کے بھاگنے یا ان کے بے بس نہ ہونے کا اندیشہ ہو تو ان کو تصرفات سے روکنے کے لیے قید کرنے کے ساتھ آنکھوں پر پٹی باندھی جاسکتی ہے یا تنہا کسی مکان میں قید کیا جا سکتا ہے علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں فَاِنَّ الْحَبْسَ الشَّرْعِیَّ لَیْسَ ھُوْ السِّجْنُ فِی مَکَانٍ ضَیِّقٍ وَانَّمَا ھُوْ تَعْوِیْقُ الشَّخْصِ وَمَنْعُہ مِنَ التَّصَرُّفِ بِنَفْسِہ (فتاوی لابن تیمیہ:۳۵ / ۳۹۸)

یعنی قیدکا اصل مقصد قیدیوں کو اپنے تصرفات اور شرارت سے روکنا ہے اور یہ چاہے جس طرح بھی حاصل ہو جائے، اس کے ساتھ معاملہ ویسا کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے تمام قیدیوں کو ان کے ذاتی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے گا،ہر قیدی کا مزاج، قوت وطاقت اور منصوبے الگ الگ ہوتے ہیں، اگر کسی قید ی کے بارے میں اطمینان ہوکہ یہ نہیں بھاگے گا تو اسے ہتھکڑی یا بیڑی لگا نے کی ضرورت نہیں اور اگر کوئی قیدی طاقتور ہو اور اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا ہو، فرار ہونے کا احتمال ہو تو اس کی آنکھوں پر پٹی بھی باندھی جاسکتی ہے، وغیرہ وغیرہ؛ غرضیکہ اصل مقصد قیدیوں کو زیر کرنا اور ان کی شوکت کو ختم کرنا ہے، اس کے لیے جیل میں ڈالنا ضروری نہیں، یہ مقصد جس طرح بھی حاصل ہو وہ قید شرعی میں داخل ہے، ھِیَ کَسْرُ شَوْکَةِ الْعَدُوِّ وَدَفْعُ شَرِّہ وَابْعَادُہ عَنْ سَاحَةِ الْقِتَالِ لِمَنْعِ فَاعِلیَّتِہ وَأذَاہُ وَلْیُمْکِنِ افْتِکَاکُ اَسْرَیٰ الْمُسْلِمِیْنَ بِہ۔ (الموسوعة الفقھیة طبع کویت:۴/ ۱۹۶)

سرکش قیدیوں کو معمولی جسمانی اذیت بھی دی جا سکتی ہے، اس کے جواز پر عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس واقعے سے روشنی پڑتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے غزوہٴ بدر کے موقع پرقریش کے حالات معلوم کر نے کے لیے بعض صحابہ کو مامور کیا، ان حضرات نے ابو سفیان کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کی غرض سے ایک غلام کو گرفتار کر لیا اور اس کی پٹا ئی بھی کر تے رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز پڑھ رہے تھے، جب نماز سے فارغ ہوے تو غلام کی پٹائی پر کسی ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا؛ بلکہ فرمایا کہ غلام صحیح کہتا ہے، اس کو ابو سفیان کا علم نہیں ۔(ابو داؤد حدیث نمبر ۲۳۳۲) لیکن یاد رہے کہ کوئی بات اقرار کرانے یا کسی جانکاری کے حصول کے لیے صرف معمولی ضرب ہی لگا ئی جا سکتی ہے، غیر انسانی مار، جیسے ضربِ شدید، ٹارچر کرنا، کرنٹ لگانا وغیرہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں، ایسے قیدیوں کو زیادہ سے زیادہ طویل عرصے تک کے لیے قید خانہ میں ڈالا جا سکتا ہے یا مصلحت دیکھی جا ئے اور شروفساد زیادہ ہوتو قتل کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ باغیوں کے قتل کی اجازت ہے اَلْمَقْصُوْدُ مِنْ قِتَالِ الْبُغَاةِ دَفْعُ شَرِّھِمْ فَاذَا وُجِدَ دَلِیْلُ الشَّرِّ وَھُوْ اجْتِمَاعُھُمْ وَتَعَسْکُرُھُمْ یَجِبُ دَفْھُمْ بِالْقِتَالِ۔ (تبیین الحقائق:۲/ ۲۹۴ مکتبہ امدادیہ ملتان )

ابن قدامہ حنبلی ایک جگہ قیدیوں سے متعلق بحث کر تے ہوئے لکھتے ہیں :

وہ قیدی جو خود سپر دگی سے گریز کرے اور قید کرنے والوں کے احکامات کی بجاآوری سے انکار کرے یا مقابلہ آرائی کے لیے آمادہ ہو جائے تو اسے ساتھ چلنے پر مجبور کیا جائے گا خواہ اس کے لیے طاقت کا استعمال کر نا پڑے اور اگر اس طرح سختی کارگر ثابت نہ ہو تو اسے سزائے موت دی جا سکتی ہے؛ کیوں کہ اس کا زندہ باقی رہنا اہلِ کفر کے لیے باعثِ تقویت اور مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔ (المغنی لا بن قدامہ: ۸/۳۷۷)

اس جزئیے سے بھی معلوم ہو تا ہے کہ کوئی قید ی جب کنٹرول سے باہر ہو جائے تو اس کو زیر اور ناتواں کرنے کے لیے مصلحتا کوئی ایسا کام کیا جا سکتا ہے، جس سے قیدی کی قوت وشوکت ٹوٹ جائے بشر طے کہ وہ کام غیر انسانی نہ ہو، ان ساری باتوں اور بحثوں پر غور کیا جائے تو قیدیوں سے متعلق دوباتیں واضح ہوتی ہیں (۱)قید کرنے کا مقصد قیدیوں کو زیر کرنا اور ان کی طاقت کو کچلنا ہے، یہ مقصد جس طرح حاصل ہو اس کے ساتھ ویسا معاملہ کیا جا سکتا ہے (۲)مجرموں کا جرم خواہ کتنا بھی سنگین ہو وہ انسان ہی رہتا ہے؛ لہٰذا سزا دیتے ہوے ان کی انسانیت کا خیال رکھا جائے اور کوئی غیر انسانی سزا نہ دی جائے۔

دراصل اسلام انسانی حقوق اور بنیادی آزادی کے تحفظ کا پا بند کرتا ہے اورکسی ایسے عمل کی اجازت نہیں دیتا جو حقوق انسانی اور بنیادی آزادی کو متأثر کرتا ہو، جیسے انسان کے زندہ رہنے کے لیے مناسب غذا، صاف پانی کی ضرورت ہے، قیدیوں کو اس سے محروم نہیں رکھا جائے گا، اسی طرح علاج ومعالجہ، حفظانِ صحت کے لیے ورزش وتفریح، بیوی سے جنسی تعلق وغیرہ ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کی انھیں مکمل اجازت ہو گی کہ یہ چیز یں انسانی حقوق میں داخل ہیں مذہبی امور میں بھی ان سے کوئی تعرض نہیں کیا جا ئے گا، جس مذہب کو وہ مانتا ہے اس کی یا اس مذہب کے پیشواؤں اور کتابوں کی توہین نہیں کی جائے گی اور نہ دوسرے مذہب کے قبول کرنے پر انھیں مجبور کیا جائے گا، مذہبی کتابوں کے مطالعہ، مذہبی تعلیمات کے مطابق غذا فراہم کرنا،دوسرے قیدیوں کے درمیان دعوتِ دین یہ سب مذہبی امور ہیں جو انسان کے بنیادی حقوق اور بنیادی آزادی میں شامل ہیں، کسی جرم کے سبب ان کے یہ حقوق ختم نہیں ہوں گے، یہی وجہ ہے کہ عام حالات میں مشرک سے اور ذمی ومستامن سے ان کے عقائد ومذہب سے تعرض کرنے سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے؛ جب کہ شرک بہت بڑا جرم ہے، اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے انسانی اوربنیادی حقوق سے کوئی تعرض نہیں فرمایا۔

بنیادی حقوق میں اخبار ات پڑھنا، ریڈیو سننا، فون پر احباب واقارب سے گفتگو کرنا، دوسرے قیدیوں سے ملاقات، تعلیم اور ہنر سیکھنا بھی داخل ہے، ان حقوق سے انھیں محروم نہیں کیا جائے گا؛ البتہ فون پر بات چیت میں اگر اندیشہ ہو کہ اس کے ذریعے وہ سازش کر سکتا ہے تو اسے روک دیا جائے گا، ورنہ عام حالات میں اس کی اجازت ہو گی۔

قیدیوں کو قید خانہ سے فرار ہونے کے خوف سے نکلنے کی اجازت تو نہ ہوگی؛ البتہ فون پر بات چیت یا رشتہ داروں سے ملاقات سے نہیں روکا جائے گا، اسی طرح حکومت کو چاہیے کہ اخلاقی امور کی طرف بہ طور خاص توجہ دے، مثلا مردوں اور عورتوں کو الگ الگ قید خانے میں رکھیں؛ تاکہ دونوں کے باہم اختلاط کے سبب مسائل پیدا نہ ہوں، اسی طرح بالغ اور نا بالغ بچوں کے قید خانے بھی الگ کیے جائیں؛تا کہ جنسی استحصال وہراسانی کی شکایت کا موقع نہ ہو، یہ تمام امور یعنی مذہبی امور،اخلاقی امور، عام سماجی حقوق جسمانی ضروریات وغیر ہ انسانی حقوق میں شامل ہیں، جن کی فراہمی کی شریعت نے نہ صرف اجازت دی ہے؛ بلکہ مختلف نوعیتوں سے ان کی تاکید کی گئی ہے؛ چوں کہ انسان کو آزادی جیسی عظیم نعمت سے محروم رکھنا ہی ایک سخت سزا ہے، قید فی نفسہ بہت سے حقوق سے بے انتہا محرومی کا نام ہے؛ اس لیے شریعت نے مخصوص حالات ہی میں قید وبند کی سزا کی اجازت دی ہے جب یہ سزا دے دی گئی تو قید یوں کے لیے یہی سزا کافی ہے، اب مزید حقوقِ انسانی یا بنیادی آزادی سے محروم رکھنے کی نہ ضرورت ہے اور نہ ہی یہ عمل شرعا جائز ہے ۔

 

$$$

 

--------------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ1۔2، جلد:101 ‏، ربیع الآخر۔جمادی الاولی 1438 ہجری مطابق جنوری۔فروری 2017ء